طلاق : Divorce

Numan AhmadNuman Ahmad Staff asked 3 months ago

 سورة بقرة 229طلاق دو مرتبہ ہے پھر یا تو معروف طریقے سے روک لینا ہے یا پھر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردینا ہے اور تمہارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم نے انہیں دیا تھا اس میں سے کچھ بھی واپس لو سوائے اس کے کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ وہ حدود اللہ کو قائم نہیں رکھ سکیں گے پس اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہیں رہ سکتے تو ان دونوں پر اس معاملے میں کوئی گناہ نہیں ہے جو عورت فدیہ میں دے یہ اللہ کی حدود ہیں پس ان سے تجاوز مت کرو اور جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں وہی ظالم ہیں

Divorce is twice; then either to retain in all fairness, or to release nicely. It is not lawful for you to take back anything from what you have given them, unless both apprehend that they would not be able to maintain the limits set by Allah. Now, if you apprehend that they  would not maintain the limits set by Allah, then, there is no sin on them in what she gives up to secure her release. These are the limits set by Allah. Therefore, do not exceed them. Whosoever exceeds the limits set by Allah, then, those are the transgressors Surah Baqrah: 229

ایک شخص نے حضور سے سوال کیا کہ دو طلاقیں تو اس آیت میں بیان ہوچکی ہیں تیسری کا ذکر کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا آیت (اوتسریح باحسان) میں، جب تیسری طلاق کا ارادہ کرے تو عورت کو تنگ کرنا اس پر سختی کرنا تاکہ وہ اپنا حق چھوڑ کر طلاق پر آمادگی ظاہر کرے، یہ مردوں پر حرام ہے۔

A person asked the Prophet ﷺ that two divorces have been mentioned in this verse, where is the mention of the third one? He said in the verse (Utsarih Bahsan), when she intends to divorce for the third time, to harass a woman, to be harsh on her so that she gives up her right and shows her willingness to divorce, this is forbidden for men

سنن نسائی میں ہے۔ حضور ﷺ کو ایک مرتبہ یہ معلوم ہوا کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں ایک ساتھ دی ہیں۔ آپ سخت غضبناک ہو کر کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے کیا میری موجودگی میں کتاب اللہ کے ساتھ کھیلا جانے لگا۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا اگر حضور ﷺ اجازت دیں تو میں اس شخص کو قتل کرو، لیکن اس روایت کی سند میں انقطاع ہے

حضرت سہل بن سعد اور ابو اسید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت امیہ بنت شرجبیل سے نکاح کیا جب وہ رخصت ہو کر آئیں اور آپ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو گویا اس نے برا مانا، آپ ﷺ نے ابو اسید سے فرمایا اسے دو رنگین کپڑے دے کر رخصت کرو،

حضرت محمد اسحاق فرماتے ہیں انہیں اولاد نہیں ہوتی تھی ایک دن ایک چڑیا کو دیکھا کہ وہ اپنے بچوں کو چوغہ دے رہی ہے تو انہیں ولولہ اٹھا اور اللہ تعالیٰ سے اسی وقت دعا کی اور خلوص کے ساتھ اللہ کو پکارا، اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی دعا قبول فرما لی اور اسی رات انہیں حمل ٹھہر گیا جب حمل کا یقین ہوگیا تو نذر مانی کہ اللہ تعالیٰ مجھے جو اولاد دے گا اسے بیت المقدس کی خدمت کے لئے اللہ کے نام پر آزاد کر دوں گی، پھر اللہ سے دعا کی کہ پروردگار تو میری اس مخلصانہ نذر کو قبول فرما تو میری دعا کو سن رہا ہے اور تو میری نیت کو بھی خوب جان رہا ہے، اب یہ معلوم نہ تھا لڑکا ہوگا یا لڑکی جب پیدا ہوا تو دیکھا کہ وہ لڑکی ہے اور لڑکی تو اس قابل نہیں کہ وہ مسجد مقدس کی خدمت انجام دے سکے اس کے لئے تو لڑکا ہونا چاہئے تو عاجزی کے طور پر اپنی مجبوری جناب باری میں ظاہر کی کہ اے اللہ میں تو اسے تیرے نام پر وقف کرچکی تھی لیکن مجھے تو لڑکی ہوئی ہے،

محبت و مودت کا آفاقی اصول اللہ تعالیٰ  اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرماتا ہے کہ اس نے تم سب کو ایک ہی شخص یعنی آدم علیہ السلام سے پیدا کیا ہے، ان کی بیوی یعنی حواء علیہما السلام کو بھی انہی سے پیدا کیا، آپ سوئے ہوئے تھے کہ بائیں طرف کی پسلی کی پچھلی طرف سے حواء کو پیدا کیا، آپ نے بیدار ہو کر انہیں دیکھا اور اپنی طبیعت کو ان کی طرف راغب پایا اور انہیں بھی ان سے انس پیدا ہوا۔

سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ نے جب اپنی بیوی صاحبہ کو طلاق دینے کا ارادہ کیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا تھا کہ اس طلاق میں گناہ ہے، [طبرانی کبیر:136/25:ضعیف] ‏ چنانچہ وہ اپنے ارادے سے باز رہے، ایک روایت میں یہ واقعہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کا مروی ہے۔ [مستدرک حاکم:302/2:ضعیف] ‏

[4-النساء:129] ‏ یعنی ” گو تم چاہو لیکن تم سے نہ ہو سکے گا کہ عورتوں کے درمیان پوری طرح عدل و انصاف کو قائم رکھ سکو پس بالکل ایک ہی طرف جھک کر دوسری کو مصیبت میں نہ ڈال دو “

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں تین مرتبہ فرمایا کہ ”بیوہ عورتوں کا نکاح کر دیا کرو“، ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ یا رسول اللہ! ایسی صورت میں ان کا مہر کیا ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ”جس پر ان کے گھر والے راضی ہو جائیں“