Swearing or making bad supplications in anger : (غصے میں عہد کرنا ,قسم کھا لینا یا بد دعا کرنا)
Shaabi, may Allah have mercy on him, says that a person took a vow that he would slaughter his son. When this incident reached Hazrat Masrooq, he issued a fatwa that that person should slaughter a ram, otherwise the vow is from the footprints of Satan. Hazrat Abdullah bin Masoud was eating a goat’s leg with salt one day. A person who was sitting next to him moved away and sat far away. He said, “Eat.” He said, “I will not eat.” He said no, I have made it haram for myself.
Abu Rafi’ says that one day I got angry with my wife, so she said that one day I am a Jew, one day I am a Christian and all my slaves are free. What should be done in this case? Then he said, “It is following the footsteps of the devil.” Then I went to Hazrat Zainab bint Umm Salma, and at that time there was no female jurist in Madinah more than her. I asked her the same problem and got the same answer. Ibn Umar also issued the same fatwa.
Hazrat Ibn Abbas’s fatwa is that whoever takes an oath in a state of anger, and whoever accepts a vow in such a state, is submissive to Satan’s steps, and the expiation of the oath is equal to the expiation of the oath. Then he said, “Satan asks you to do evil deeds and more than that adultery and more than that to associate with Allah those things of which you do not know, he associates with Allah those things of which he does not even know.” Therefore, every unbeliever and heretic is among them who enjoins evil and encourages evil.
Do not use the name of Allah to take such oaths, which are intended to prevent goodness and piety and the good deeds of the servants of Allah. Allah is listening to all your words and knows everything (Surat al-Baqarah verse 224).
Oaths and expiation: Allah Almighty says that do not make the oaths of Allah a means of leaving goodness and mercy, as elsewhere in the verse, that is, those who are generous and free, those who are relatives, the poor, and those who migrated in the way of Allah. Don’t take oaths to not give anything to those who do it, they should get into the habit of forgiving and forgiving, isn’t it your own wish that Allah may forgive you, if someone takes such an oath, he should break it and pay expiation. do it
Allah will not blame you for your senseless oaths (which you take without intention), but He will definitely blame you for those oaths that you have taken with your heart’s intention, and Allah is Oft-Forgiving and He is gentle (Surah Al-Baqarah, verse 225).
Narrated by Hazrat Ayesha in Abu Dawud, there is a hadith of Marwi, which has been confirmed in other traditions, that these empty oaths are those that a person says to his children in his house and bar, saying, “Yes, by Allah, and they swear by Allah.” These words come out as a pillow of speech without even thinking about its maturity in the heart. If he swears with intention and then goes against it, he will have to pay expiation
It is in the hadith that was transmitted that once the Messenger of Allah (ﷺ) went to a group of archers, they were shooting and one of them would say by Allah that his arrow would hit the target, sometimes he would say by Allah He will make a mistake, the Companions of the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) said, “Look at the Holy Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) if it is against his oath. The Prophet (peace be upon him) said that these two oaths are invalid, there is no expiation for them, and there is no punishment or punishment. If someone removes the words of bad supplication from his tongue, they are also included in the slur, or if he swears out of his tongue in a state of anger and rage, or if he makes the halal forbidden or the forbidden halal, then he should not care about these oaths. And do not go against the commandments of Allah.
Surah Imran 128: O Prophet ﷺ, you have no authority in this matter. May Allah accept their repentance or punish them because they are unjust.
It is in Sahih al-Bukhari that the Messenger of Allah, peace and blessings be upon him, would raise his head from the bowing of the second rak’at in the morning prayer and say, “O Allah, curse so-and-so and so-and-so.” [Sahih] Al-Bukhari: 4069]
The names of these disbelievers are also mentioned in Musnad Ahmad, for example, Harith bin Hisham Suhail bin Amr Safwan bin Umayyah, and it is in this that they were finally guided and became Muslims [Sunan Tirmidhi: 3004]
There is a tradition that four men were prevented from doing this bad prayer. [Sunan al-Tirmidhi: 3005, Al-Sheikh Al-Albani said: Hasan Sahih] It is in Sahih Bukhari that when the Prophet, peace and blessings of God be upon him, wanted to make an evil supplication for someone or to make a good supplication for someone, after bowing, he said “Sama’ Allah” and When praying by reading “Rabna” they would say O Allah! Waleed bin Waleed Salma bin Hisham Ayyash bin Abu Rabiyyah and save the weak believers from disbelief, O Allah, take hold of the tribe of Mudar and send down your punishment and send on them a famine like it was in the time of Yusuf. And sometimes in the morning prayer, he used to say, “O Allah, curse so-and-so and so-and-so” and used to mention the names of some Arab tribes. [Sahih Bukhari: 4560]
شعبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ اپنے لڑکے کو ذبح کرے گا حضرت مسروق کے پاس جب یہ واقعہ پہنچا تو آپ نے فتویٰ دیا کہ وہ شخص ایک مینڈھا ذبح کر دے ورنہ نذر شیطان کے نقش قدم سے ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ایک دن بکرے کا پایا نمک لگا کر کھا رہے تھے ایک شخص جو آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ ہٹ کر دور جا بیٹھا، آپ نے فرمایا کھاؤ اس نے کہا میں نہیں کھاؤنگا آپ نے پوچھا کیا روزے سے ہو ؟ کہا نہیں میں تو اسے اپنے اوپر حرام کرچکا ہوں آپ نے فرمایا یہ شیطان کی راہ چلنا ہے اپنے قسم کا کفارہ دو اور کھالو،
ابو رافع کہتے ہیں ایک دن میں اپنی بیوی پر ناراض ہوا تو وہ کہنے لگی کہ میں ایک دن یہودیہ ہوں ایک دن نصرانیہ ہوں اور میرے تمام غلام آزاد ہیں اگر تو اپنی بیوی کو طلاق نہ دے، اب میں حضرت عبداللہ بن عمر کے پاس مسئلہ پوچھنے آیا اس صورت میں کیا کیا جائے ؟ تو آپ نے فرمایا شیطان کے قدموں کی پیروی ہے، پھر میں حضرت زینب بنت ام سلمہ کے پاس گیا اور اس وقت مدینہ بھر میں ان سے زیادہ فقیہ عورت کوئی نہ تھی میں نے ان سے بھی یہی مسئلہ پوچھا یہاں بھی یہی جواب ملا، عاصم اور ابن عمر نے بھی یہی فتویٰ ،
حضرت ابن عباس کا فتویٰ ہے کہ جو قسم غصہ کی حالت کھائی جائے اور جو نذر ایسی حالت میں مانی جائے وہ شیطانی قدم کی تابعداری ہے اس کا کفارہ قسم کے کفارے برابر دے دے۔ پھر فرمایا کہ شیطان تمہیں برے کاموں اور اس سے بھی بڑھ کر زناکاری اور اس سے بھی بڑھ کر اللہ سے ان باتوں کو جوڑ لینے کو کہتا ہے جن کا تمہیں علم نہ ہو ان باتوں کو اللہ سے متعلق کرتا ہے جن کا اسے علم بھی نہیں ہوتا، لہذا ہر کافر اور بدعتی ان میں داخل ہے جو برائی کا حکم کرے اور بدی کی طرف رغبت دلائے۔
اللہ کے نام کو ایسی قسمیں کھانے کے لئے استعمال نہ کرو ، جن سے مقصود نیکی اور تقویٰ اور بندگان اللہ کی بھلائی کے کاموں سے باز رہناہو۔ اللہ تمہاری ساری باتیں سن رہا ہے اور سب کچھ جانتا ہے ( سورۃ بقرۃآیت 224)
قسم اور کفارہ : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیکی اور صلہ رحمی کے چھوڑنے کا ذریعہ اللہ کی قسموں کو نہ بناؤ، جیسے اور جگہ ہے آیت یعنی وہ لوگ جو کشادہ حال اور فارغ البال ہیں وہ قرابت داروں، مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہ دینے پر قسمیں نہ کھا بیٹھیں، انہیں چاہئے کہ معاف کرنے اور درگزر کرنے کی عادت ڈالیں، کیا تمہاری خود خواہش نہیں اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے، اگر کوئی ایسی قسم کھا بیٹھے تو اسے چاہئے کہ اسے توڑ دے اور کفارہ ادا کر دے،
اللہ تعالیٰ مؤاخذہ نہیں کرے گا تم سے تمہاری بےمعنی قسموں پر (جو تم عزم و ارادہ کے بغیر کھا بیٹھتے ہو) لیکن ان قسموں پر تم سے ضرور مؤاخذہ کرے گا جو تم نے اپنے دلی ارادے کے ساتھ کھائی ہوں اور اللہ بخشنے والا ہے اور حلیم ہے
( سورۃ بقرۃآیت 225)
ابو داؤد میں بروایت حضرت عائشہ ایک مرفوع حدیث مروی ہے جو اور روایتوں میں موقوف وارد ہوئی ہے کہ یہ لغو قسمیں وہ ہیں جو انسان اپنے گھر بار میں بال بچوں میں کہہ دیا کرتا ہے کہ ہاں اللہ کی قسم اور انہیں اللہ کی قسم، غرض بطور تکیہ کلام کے یہ لفظ نکل جاتے ہیں دل میں اس کی پختگی کا خیال بھی نہیں ہوتا، حضرت عائشہ سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ دو قسمیں ہیں جو ہنسی ہنسی میں انسان کے منہ سے نکل جاتی ہیں، ان پر کفارہ نہیں، ہاں جو ارادے کے ساتھ قسم ہو پھر اس کا خلاف کرے تو کفارہ ادا کرنا پڑے گا
حدیث میں ہے جو مرسل ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ تیر اندازوں کی ایک جماعت کے پاس جا کھڑے ہوئے، وہ تیر اندازی کر رہے تھے اور ایک شخص کبھی کہتا اللہ کی قسم اس کا تیر نشانے پر لگے گا، کبھی کہتا اللہ کی قسم یہ خطا کرے گا، آپ ﷺ کے صحابی نے کہا دیکھئے حضور ﷺ اگر اس کی قسم کے خلاف ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ دو قسمیں لغو ہیں ان پر کفارہ نہیں اور نہ کوئی سزا یا عذاب ہے، بعض بزرگوں نے فرمایا ہے یہ وہ قسمیں ہیں جو انسان کھا لیتا ہے پھر خیال نہیں رہتا، یا کوئی شخص اپنے کسی کام کے نہ کرنے پر کوئی بد دعا کے کلمات اپنی زبان سے نکال دیتا ہے، وہ بھی لغو میں داخل ہیں یا غصے اور غضب کی حالت میں بےساختہ زبان سے قسم نکل جائے یا حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرلے تو اسے چاہئے کہ ان قسموں کی پروا نہ کرے اور اللہ کے احکام کیخلاف نہ کرے،
Surah Imran 128 : (اے نبی ﷺ اس معاملے میں آپ کو کوئی اختیار نہیں اللہ ان کی توبہ قبول کرے یا انہیں عذاب دے اس لیے کہ وہ ظالم ہیں
صحیح بخاری میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں جب دوسری رکعت کے رکوع سے سر اٹھاتے اور کہہ لیتے تو کفار پر بد دعا کرتے کہ اے اللہ فلاں فلاں پر لعنت کر اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی [صحیح بخاری:4069]
مسند احمد میں ان کافروں کے نام بھی آئے ہیں مثلاً حارث بن ہشام سہیل بن عمرو صفوان بن امیہ اور اسی میں ہے کہ بالآخر ان کو ہدایت نصیب ہوئی اور یہ مسلمان ہو گئے، [سنن ترمذي:3004]
ایک روایت میں ہے کہ چار آدمیوں پر یہ بد دعا تھی جس سے روک دیئے گئے۔ [سنن ترمذي:3005،قال الشيخ الألباني:حسن صحیح] صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی پر بد دعا کرنا یا کسی کے حق میں نیک دعا کرنا چاہتے تو رکوع کے بعد «سمع اللہ» اور «ربنا» پڑھ کر دعا مانگتے کبھی کہتے اے اللہ! ولید بن ولید سلمہ بن ہشام عیاش بن ابو ربیعہ اور کمزور مومنوں کو کفار سے نجات دے اے اللہ قبیلہ مضر پر اپنی پکڑ اور اپنا عذاب نازل فرما اور ان پر ایسی قحط سالی بھیج جیسی یوسف کے زمانہ میں تھی یہ دعا با آواز بلند ہوا کرتی تھی اور بعض مرتبہ صبح کی نماز کے قنوت میں یوں بھی کہتے کہ اے اللہ فلاں فلاں پر لعنت بھیج اور عرب کے بعض قبیلوں کے نام لیتے تھے۔ [صحیح بخاری:4560]
hi